Saturday, September 22, 2012


جیا 


رات اپنے آخری پڑاؤ پر تھی.......
 مسجد کے میناروں سے بیدار کرنے والی اذانیں پھوٹ رہی تھیں،
 لیکن جیا آج نہ  جانے کن نیندوں سوئی ہوئی تھیں کہ جاگنے کا نام ہی نہ لیتی تھیں.

جیا کے دن تسبیح کے  دانوں کی طرح نورانی تھے. تہجّد گزار راتیں انکا مصلی بچھاتی تھیں.
 بارہ ماسی روزے رکھنے والی جیا کو آتے جاتے ہوئے موسم سلام کرتے تھے
بوٹا سا قد....ٹمٹماتی ہوئی آنکھیں......انکی انہی آنکھوں کے ساحل پر کبھی اپنے بیٹے
مصطفیٰ کیلئے خوابوں کا جمگھٹ تھا، مگر بیٹے کی جدائی میں جیا جیسے اندر سے ادھڑ سی گئی تھیں
اور خوابوں کی جگہ بیٹے کے انتظار کا دھندلکا پھیل گیا تھا
انکی مرضی کے خلاف مصطفیٰ نے کسی سےعقد کر لیا  تھا . اس صدمے سے انکے دل کی دیواریں ڈھہ گئی تھیں
پھر ایک دن جب انہوں نے بیٹے کی نفی کر دی ، بہو کو قبول کرنے سے انکار کر دیا 
تو مصطفیٰ بھیاپنی دنیا سمیٹ کے جیا کی سرحدوں سے دور چلے گئے. کبھی واپس آے نہ کوئی خبر ہی دی،
لیکن جیا کو امید تھی کہ بھٹکنوں کے مارے کو کبھی تو گھر یاد آےگا
اور اسی امید پر جب پو  پھٹتی. افق پر رنگ اکٹھا ہونے  لگتے تو جیا ایک آس لئے ہوئے
ریلوے اسٹیشن پہنچ جاتیں. دن بھر آتے جاتے مسافروں کے انبوہ میں انکی آنکھیں مصطفیٰ کو ڈھونڈتی رہتیں.
پھر دن بجھنے سے پہلے اپنے آنسوؤں کی گٹھری باندھ کے گھر لوٹ آتیں
برسوں سے انکا یہی معمول تھا

.................................
سریلی اذانیں سن کر بھی جب جیا کے  حجرے میں
 روشنی نہیں پھوٹی ، کوئی آہٹ بیدار نہیں ہوئی تو بوسیدہ سی حویلی کے درودیوار  دہل گئے.
--حجرہ کھول کے دیکھا گیا
سرد انگاروں پر راکھ جم چکی تھی .....جیا کا منھ کھلا تھا 
آنکھیں پتھرا گئی تھی
اور انکے سینے پر مصطفیٰ کی ایک پرانی تصویر پڑی تھی 


BY-
PARVEEN QAMAR

کایا کلپ
................

اپنے سمے کے مشہور شکاری اڑتے پرندوں اور دوڑتی نیل گایوں کو چھن بھر میں مار گرا دینے والے
لڈٌن میاں کی فتوحات کے قصٌے قصبے کی تاریخ بن چکے تھے۔
... بزدلوں میں بھی بہادری کے اوصاف پیدا کر دینے والے انکے واقعات محفل محفل دہراےٴ جاتے تھے۔
احباب کی ستائش نے انہیں جیتے جی افسانہ بنا دیا تھا۔
پو پھٹتی اور لڈٌن میاں اکثر کاندھے پر بندوق ٹانگ کے چل دیتے۔
انہیں شکار کا بے حد شوق تھا اور اسی شوق نے
ایک دن انکا کایاکلپ کر دیا۔

جمعہ کا دن تھا....لڈٌن میاں شکار پر تھے....
نیل گایوں کا ایک انبوہ نظر آ گیا .....فائر کیا  ...سوبھاگ سے
ایک نیل گاےٴ ڈھیر ہوگئ....سینہ پھلایا اور فاتحانہ انداز سے اسکے قریب گےٴ....دیکھا-
زخمی حالت میں ایک نیل گاےٴ زمین پر تڑپ رہی تھی۔تھنوں سے ڈھیر
سارا دودھ بہ رہا تھا اور نیل گاےٴ کا معصوم بچٌہ دودھ چاٹنے
میں مصروف تھا۔

اس سانحہ نے انہیں اندر تک گھائل کر دیا۔وہ ایک آنسو کی بوند میں تبدیل ہو کر رہ گےٴ۔
اسی دن سے شکار ترک کر دیا، رنگ و رامش کی محفلیں چھوڑ کے اپنے ہی اندر کی گپھا میں 
ایک سادھو کی طرح  چھپ کر بیٹھ گئے.   

سرخ سرخ پپوٹوں کے عقب سے
اب انکی آنکھیں آسمان گھورتی رہتی ہییں۔
پرسوں سے بھوری پتلیوں پر ایک ہی منظر منجمد ہے۔۔۔
” زخمی نیل گاےٴ زمین پر تڑپ رہی ہے۔
تھنوں سے ڈھیر سارا دودھ بہ رہا ہے
اور نیل گاےٴ کا معصوم بچٌہ دودھ چاٹنے
میں مصروف ہے۔"

-By
Parveen Qamar


THE HUNTER ( kayakalap)

The stories of laddan miyan, a famous Hunter of his time
and expert in shooting of swaying birds and running blue-cows, 
had become history of the town.
His courage-increasing stories for cowards were repeated in sittings. 
Attribute of friends had made him legend in his life time.
On break of day, having slung the gun on his shoulder 
he often setout for prey.....
He loved hunting but this hobby ruined him.

It was Friday...... Laddan miyan was hitting on his game. 
He found a herd of blue-cows and fired. 
By luck a blue-cow fell down on spot. He swelled his chest on 
his success and went near the prey. He saw a wounded blue-cow 
was writhing on the ground, milk was flowing from strips 
and her calf was licking the milk. 
This tragedy made his soul injured.....He turned into a drop of tear .
He left hunting on the same day. Giving up all enjoyments he sat down
inside  himsef , like a saint.

Now, behind red lids, his eyes keep gazing afar the sky. 
Since years the same scene is frozen on his gray eye balls.
''A wounded blue-cow is writhing 
on the ground milk is flowing from 
strips and her calf is licking the milk''.

Written By- Parveen Qamar (in urdu)








Translated By- Timsal Qamar (son)


ابٌا
------- 
ابٌا کے اندر دھوپ کا ایک ٹکڑا تھا
تبھی تو ان کے مزاج کی گرمی سے امٌاں ہر وقت پگھلتی رہتی تھیں
اپنا 'موم' لےکر کہاں جاتیں۔
دادی سے سنا تھا......
بچپن میں ابٌا کو بطور دوا شیر کی چربی گھس کے پلائ گئ تھی،
اسی لئے انکی دہاڑ سے دیواریں پیچھے ہٹ جاتی تھیں۔
رٹائرمنٹ کے بعد بھی ابٌا اپنی وردی والی قمیص ہمیشہ پہنتے۔ محلٌے والے انہیں "حولدار صاحب" کہتے تھے۔
وہ سب کے لئے سایہٴ دیوار تھے پر امٌاں کے لئے چلچلاتی دوپہر۔
اپنی پنشن کا بیشتر حصٌہ وہ ضرورت مندوں،ناداروں میں بانٹ دیتے تھے۔
اور امٌاں اف تک نہ کرتیں۔امٌاں نے تو جیسے اپنا دل کسی چٹٌا ن کے نیچے دبا دیا تھا۔ہمیشہ ابٌا کے سامنے سرنگوں رہتیں 
اور ہم ڈرے سہمے.....

ابٌا ہماری پہنچ سے اوپر تھے۔
موسمِ سرما کی ایک شب آئس برگ کی طرح تیر رہی تھی۔ ٹھنڈے بستروں میں ہم اپنےآپ سے لپٹے ہوئے پڑے تھے
۔ہلکی ہلکی برف ہمارے اندر جمنے لگی تھی... ابٌا راکھ کا ڈھیر لئے بیٹھے تھے۔ 
مارے جاڑے کے کسی کو نیند نہیں آ رہی تھی۔یک بیک محسوس ہوا جیسے کسی نے موسم تبدیل کر دیا ہو.........،دہکھاتو۔۔ ابٌا ہمیں اپنی شال سے ڈھک رہے تھے۔
By
Parveen Qamar

Pa (Abba)

There was a flame of sun in my pa........
So ma used to melt every time by his hot temper.
No escape was to her waxy nature.

I had heard from Grandma...
a bit of tiger's flesh was given as medicine to pa in his childhood. 
That's why mountains stepped back on his bawl.
Even after retirement pa always wore his uniform shirt. 
Neighbours called him 'Havildar sahib'. 

He was a cool shade to all but sweltering noon for ma.
He spent most of his pension on needy fellows but ma kept mum. 
As if ma had placed her heart under the rock. she lowered all time 
her head before pa and I was frightened. 
Pa was beyond my approach. 

A winter night was floating as iceberg........ 
I huddled with myself on a cold bed. Snow was began to freeze inside me. 
Pa was sitting near the ashes. It was so cold that none was in sleep.
At random I felt that someone had changed the weather. 

I saw...................., 
'Pa was covering me with his cape.'

Written By- Parveen Qamar.(in Urdu)







Translated By- Timsal Qamar (son)



فرشتوں کی خوشبو
........................

ثروت اور انکے شوہر کے درمیان دس برس سے ایک لمحہ حایل ہے. 
...........................
وہ موسم بہار کا پہلا دن تھا. ثروت کی چھوٹی بہن ثمینہ کناڈا سے آئ ہوئی تھی. 
ثمینہ بڑی شوخ واقع ہوئی تھی. اکثر شاعروں کا مذاق اڑاتی اور شاعری کو    
Missing Art کہتی تھی. 
اس دن نہ  جانے کیا افتاد پڑی........   ثمینہ کہنے لگی--  "آپا !! "
دولھا بھائی، تو شاعر ہیں مگر گھر میں اشعار کی مہک نہیں آ رہی ہے ؟
ثروت کو شاعر کی بیوی ہونے کا بڑا ناز تھا. ناز سے بولیں--
جب سے تم آئ ہو، 'غالب غزل سرا نہ ہوا'
ورنہ اشعار'اڑتے پھرتے تھے تتلیوں کی طرح'........ 
دل صاحب  دونوں بہنوں کی گفتگو پر زیر لب مسکراتے رہے 
اور دل ہی دل ایک  مصرع دوہراتے رہے.......

              چھیڑ خوباں سے چلی جاۓ اسد 

وہ انکی شادابیوں کے دن تھے. انکے گلے میں نور تھا ایک تو سالی صاحبہ کی 
فرمائش دوسرے بیوی کا اصرار....... دل صاحب نے ایسی غزل چھیڑی کہ  دل 
نکال کے رکھ دیا .
.....................
اگلے دن ثروت نے، جنہیں اپنے شوہر کے پاس فرشتوں کی خوشبو آتی تھی، 
اور اپنی  چھوٹی بہن جسکو انہوں نے گودیوں کھلایا تھا، دونوں کے درمیان  
سرحدوں کو ٹوٹتے ہوئے دیکھ لیا.وہ پتھر کی ہو گئیں
برس بیت گئے......... مگر وہ آج بھی اپنے شوہر کے ساتھ.......... بیوی نہیں 
بہن کی طرح رہ رہی ہیں. 
By -
Parveen Qamar


شکست   
................
امانت خاں موسیقی میں روایت بن چکے تھے۔
انکی شہرٴہ آفاق گلوکاری کسی معجزے سے کم نہیں تھی۔ کثرتِٴریاض نے 

انہیں ایسا پارنگت کر دیا تھا کہ۔۔۔۔۔
مرہمِ آواز سے لوگوں کے گھاٴو بھر جاتے۔۔۔ بیمار اچٌھے ہو جاتے۔۔۔ تان لگاتے

 تو نواح میں سفید کبوتروں کے جھنڈ اترنے لگتے۔ اپنی موسیقی دانی پر انہیں بڑا ناز تھا۔ 
بڑے بڑوں کو خاطر میں نہ لاتے تھے۔
ایک دن سیرِصبح کو نکلے خراماں خراماں چلے جارہے تھے۔ 
کانوں میں ایک سریلی آواز مصری گھولنے لگی۔اچانک پاوٴں رک گےٴ پھر آپ ہی آپ
قدم آ واز کے تعقٌب میں اٹھنے لگے۔ چلتے چلے گئے۔.... 

گلی کے موڑ پہ دیکھا- ایک نیم پگلی اپنی دھن میں گاےٴ جا رہی تھی۔۔۔۔
خاں صاحب پر ایک وجدانی کیفیت طاری ہو گئ۔۔۔۔
دھیمے دھیمے دھن دہرانے کی کوشش کرنے لگے مگر کامیاب نہ ہو سکے۔
اپنی گائکی سے لوگو ں کا روحانی نظام تبدیل کر دینے والے امانت خاں کو اپنی شکست کا احساس ہونے لگا....۔

وہ نڈھال ہو گئے۔.....بے بسی کے عالم میں اپنی دکھ بھری انا لیکر لوٹ آئے۔

گھر آکے لاکھ جتن کئے۔ ہزار جگت کی لیکن۔۔۔۔۔۔۔
’وہ بات پیدا نہیں ہوئ‘ 

By- Parveen Qamar







کتاب دار 
--------------


رات دن کتابوں کے ڈھیر میں اپنے آپ کو تلاش کرتے کرتے،
وہ دنیا سے کٹ سا گیا تھا۔اسکے نواح میں تنہائیوں نے جالے بن دےٴ تھے۔
کوئ ڈور اسے کھینچتی تھی نہ رشتوں کی چپچپاہٹ۔سنہری چہروں کو دیکھ کر بھی اسکے اندر .....
تتلیاں اڑتی تھییں نہ رنگ برستا تھا....
زندگی ایک سادہ ورق بنکے رہ گئ تھی۔


پڑھتے پڑھتے کبھی وہ خلاء میں گم ہوجاتا کبھی لکھتےلکھتے اسے اپنی آہٹ محسوس ہونے لگتی۔
برسوں بعد ایک دن وہ چپ چاپ کاغذ پر نمودار ہو گیا....کتاب مکمٌل ہوگئ۔
کتاب میں جو دنیا تخلیق کی گئ تھی اسکے تاروپود خوابوں کی دنیا سے ملتے تھے۔
اسے زمین پر چاند اتارنے کی آرزو تھی،لیکن اسکے سامنے ابھی کتاب کی اشاعت کا مرحلہ تھا.



موسم لباس بدلتے رہے. کتاب مکمّل ہوئے ہفتہ و ماہ نہیں برس گزر گئے 
دھیرے دھیرے  تخلیق اور اشاعت کے درمیان وہ خود حایل ہو گیا.
اشاعت کا خیال آتے ہی اسے وہ جملے ہانٹ کرنے لگتے
جو کافکا نے اپنے ایک عزیز دوست کو لکھے تھے.....
جن میں کافکا نے اپنے مرنے کے بعد اپنی تمام ڈائریاں، مسودے، خطوط، خاکے وغیرہ 
بن پڑھے ہی نزرآتش  کر دینے کی درخواست کی تھی.


                                                                                                                                                                                              
                           -By 
     Parveen Qamar    
              
AUTHOR (Kitabdar)


Night and day, to find himself in pile of books,
he had been cut off from the world. Lonliness webbed around him.
Neither links nor relations hypnotized him.
looking fairer sex, no butterflies flew nor colour rained inside him.
The life was left as a simple leaf.....
Sometime, while studying, he felt lost into space, sometime he began to
achieve himself. years later, one day he had quietly appeared on the paper.
The Book had been completed. The world which was sculpted in the book
was like a dream. He wanted moon landing on the earth,
but there was a problem of publishing book before him.

Seasons kept changing phase.......
Not only weeks,months but years had gone after completing the manuscript.
He himself had been become hindrance slowly between creation and publication.
Wishing for publication, the words of kafka started to haunt him,
by those he requested to his dear friend---
"to be burned unread
all his diaries, manuscripts,
letters and sketches
after his death."




Written By- Parveen Qamar (in urdu)



Translated By- Timsal Qamar (son)



تنہائی کی اوٹ  میں 


عینی بجیا بڑی عمر کی محبوبہ جیسی لگتی تھیں...
وہ سب سے تپاک جاں سے ملتی تھیں  مگر قمر صاحب کے ساتھ انکا یہ احساس 
لوگوں کی گفتگو کا حصّہ بنتا جا رہا تھا، وہ اکثر عینی بجیا کے گھر جایا کرتے تھے 
ان دنوں انکے درمیان گراں نہ گزرنے والے الفاظ رواج پا رہے تھے.......

ہنسی مذاق کے اس شفّاف رشتے کو کھڑکی کی باریک جھری میں اٹکی ہوئی دو آنکھیں ریکارڈ کیا کرتی تھیں
اور دل کے تہ خانے سے سونے چاندی کے ورق نکال نکال کر لٹایا کرتی تھیں.....
کبھی ان مسلسل ملاقاتوں کا سلسلہ ٹوٹ جاتا تو قمر صاحب کی غیر حاضری کی شکایت عینی بجیا کم 
عینی بجیا کے گھر کمرے میں مقید، کھڑکی کی باریک جھری میں اٹکی ہوئی دو آنکھیں زیادہ کیا کرتی تھیں.
پر وہ مہربان آنکھیں جس چہرے پر جڑی ہوئی تھیں وہ چہرہ ان سے پردہ کرتا تھا.انکی آمد پر چھوٹے سے 
کمرے میں غروب ہو جانا اور نہ آنے پر ایک اضطراب سا محسوس کرنا........ ان کے اس رومانٹک اینگل کا
 ذکر جب عینی بجیا نے قمر صاحب سے کیا  تو ان کے اندر اس چہرے کو دیکھنے کی لہر سی اٹھنے لگی
 مگر اس چہرے کو دیکھ پانا سہل نہ تھا........ تنہائی کی اوٹ میں اس کا پڑاؤ تھا.

ایک دن دالان میں قمر صاحب عینی بجیا کے ساتھ بیٹھے چاۓ کی پیالی میں شکر کیوب گھول رہے تھے.
اچانک پیالی زمیں پر گرنے کے ساتھ ہی عینی بجیا  کے منھ سے بے ساختہ ایک چیخ نکل گئی..........
چیخ سن کر پردے کا بھرم ٹوٹ گیا. دیواروں کے بیچ سے زندگی کا ایک ڈھیر نکلا ....کمرے کی سچائی
 باہرآگئی جسے متصوّر کرنے کے لئے نہ جانے کتنی خوبصورتیاں انکے ذہن میں اکٹھا ہو گئی تھیں اسے 
مُڑ کے دیکھا تو ............
                                    جھریوں بھرا ایک بوڑھا چہرہ سامنے تھا.  





By-
Parveen Qamar       
  

مجذوب 


اسے دم توڑتے ہوئے کسی نے نہیں دیکھا تھا. 
صبح تک آوارہ کتوں نے اس کی نعش کی حفاظت کی تھی.
                                                     .....................
ہم نے جب اسے پہلی بار دیکھا تھا تو سگان شہر کا ایک دربار منعقد تھا. 
دھول میں لپٹا ہوا ایک سایہ ٹوٹی ہوی دیوار کے سہارے نیم دراز تھا. 
سڑک پر آوازوں کا ایک دریا بہتا چلا جا رہا تھا
 مگر وہ اپنے اسالیب میں کتوں سے مخاطب تھا. 
انسانوں کیلئے اس کے مکالمے مفہوم کھو چکے تھے. 

کہتے ہیں اسے اصحاب دنیا سے کوئی لگاوٹ تھی نہ دنیا سے. 
وہ کسی کو بھی اپنے پاس پھٹکنے نہیں دیتا تھا. کبھی کوئی آہٹ 
اسکے قریب آنے کا سا ہس بھی کرتی تو وہ اپنی ساری آگ اگل دیتا. 
پتھروں اور اینٹوں کی بارش شروع کر دیتا. 
............................
اسکی موت کی خبر پھیلتے ہی بن کہے فریموں سے تصویریں ،
در و دیوار سے پرچھائیاں باہر نکل آئین. سڑک پر آوازوں کا جمگھٹ بڑھنے لگا. 
اور جب اسکی ہذیان گوئی کو لا تعداد معانی دئے جانے لگے .........
مرنے والے کو زندہ رکھنے کے منصوبے بناۓ جانے لگے تو ایک ایک کرکے 
سارے کتے غایب ہو گۓ. 

By-
Parveen Qamar



خرابہ 


"MAN WAS NOT FORMED TO LIVE ALONE"

با ئرن کی ایک خوبصورت نظم کا مصرع دہراتے ہوئے 
نور نے کہا --
شاہینہ آپی !!
آپ شادی کیوں نہیں کر لیتیں ؟؟؟ 
انسان تنہا رہنے کے لئے تخلیق نہیں کیا گیا تھا. 
................
شاہینہ کو لگا جیسے اسکی شاخوں سے سارے پتے یکبیک اتر گئے ہوں.
اسکی سانسوں میں ڈھیر سارے دھاگے الجھ گئے. اسے نور کا بے ساختہ پن 
اچھا نہیں لگا مگر وہ اخلاقاً مسکرا دی. 
کہتی بھی کیا ......
'اسے کسی ریت کے ٹیلے سے عشق ہے جو اپنی جگہ تبدیل کرتا رہتا ہے'
                                                             ........................
پھر ایک ثانیہ بعد اپنے اندر گرتی ہوئی ایک دیوار  
سبھالتے ہوئے بولی --
نور تم نے ایلیٹ کو پڑھا ہے ؟
وہ میرا محبوب شاعرہے
'I AM HIS 'THE WASTE LAND'
میں اسکا خرابہ ہوں. 

By-
Parveen Qamar



اہل دل 


انظر بھائی کے اندر سوکھے ہوئے پتوں کا ایک ڈھیر تھا......... 
جو رات بھر کھڑ کھڑایا کرتا تھا. بھر پور علاج کے بعد بھی وہ مکمل صحت یاب نہ ہو سکے تھے. 
ہوتے بھی کیسے ؟ ڈاکٹروں نے آرام کی سخت ہدایت کی تھی،
مگر ٹھنڈے توے کی اداسی انھیں گھر بیٹھنے نہیں دیتی تھی. 
اندر ہی اندر ڈھیر ساری موم بتیاں جلتی پگھلتی رہتی تھیں.

طویل بیماری نے انھیں مسمار کر دیا تھا. انکا سارا کار و بار تباہ ہو گیا تھا. 
ایک ایک کرکے گھر کی  قیمتی چیزیں فروخت کر چکے تھے. زندگی چلچلا تی دھوپ  
میں جھلس گئی تھی پھر بھی موسم کی شکایت نہیں کرتے تھے.

ایک دن گھر سے نکلے اور غیرارادی طور پر ٹہلتے ٹہلتے خانقاہ پہنچ گئے.
پیروں فقیروں سے انکو کوئی شغف نہ تھا، پر اس دن روح میں گلاب کی ٹہنیاں  جھومنے لگیں. 
اہل دل کی محفل سجی تھی چپ چاپ بیٹھ گئے. دو ایک مرتبہ صوفی صاحب نے
اچٹتی نگاہ سے دیکھا بھی مگر انہوں نے کوئیعرض مدّعا نہ کی....
طلب کا ہاتھ نہیں پھیلایا. 
..................
ریشم کے کیڑے شہتوت کی پتیاں چاٹتے رہے...... اور انظر بھائی خاموش بیٹھے رہے......
کچھ دیر بعد اٹھنے لگے تو بغیر گفت و شنید صوفی صاحب نے 
مصافہ کے درمیان ان کے ہاتھ میں کچھ رقم دبا دی.

By-
Parveen Qamar


سرہانے میر کے .......


رات کی پتیاں گر رہیں تھیں .......
سناٹوں کی فصیل کے ادھر رہ رہ کر ایک آواز پھپھک جاتی تھی 
اور فضا میں میر کا شعر لو دے اٹھتا تھا ..........

سر ہانے   میر کے  آ ہستہ   بولو 
ابھی ٹک روتے روتے سو گیا ہے 

آخر شب کی یہ غیر واضح آواز نصرت آپا کی تھی .
سنہرے  دل اور سفید بالوں والی نصرت آپا ہماری ہمسایہ تھیں.......
میر کے شعرایسے پڑھا  کرتی تھیں گویا .ان کے سینے میں میرکا دیوان تھا.
بڑی زندہ دل ضعیفہ تھیں. برسوں سے بلڈ کینسر تھا، مگر زندگی کے رکھ رکھاؤ میں
 کوئی کمی نہ تھی. 

رات کی پتیاں گر رہی تھیں .........
اور وہ بار بار میر کا شعر پڑھ رہی تھیں.
شاید وہ رات ان پر بھاری پڑ گئی تھی. 
رات کا آخری تارا ٹوٹتے ہی افق پر سفید بال اڑنے لگے،
بے آواز گلی کوچوں میں جان آ  گئی.
صبح دم سناٹوں کی فصیل منہدم ہوئی، تو انکے اطراف کئی چہرے اکٹھا ہو گے

حیرتوں نے دیکھا -- 
.................
نصرت آپا کی آنکھوں میں رات کی پتیاں ڈھیر تھیں 
کھلے ہوئے ہونٹ میر کے دو مصرعوں  میں تبدیل ہو گے تھے 

سرہانے    میر  کے   آھستہ  بولو 
ابھی ٹک روتے روتے سو گیا ہے 



By-
Parveen Qamar




ON MIR'S HEAD ( Sarhane Mir ke )

Leaves of night were falling........
A voice, across firewall of silence, often flickered
and Mir's couplet was lighted in the air.

sarhane  Mir ke aahista  bolo
abhi tuk rote-rote so gaya hai.
(Speak  slow  on Mir's  head,
 while weeping he fell in sleep)

On ending night, it was a deep voice of sister Nusrat.
Golden-hearted and white-haired sister Nusrat was our neighbour.
She used to recite Mir's poetry as she had a collection inside her.
She was a big playful old lady and had blood cancer for years 
but, in maintenance of life, there was no lack.

Leaves of night were falling........and she was repeating 
Mir's couplet again and again, perhaps,the night was hard to her. 
As last star of night broke,white hair started flying on horizon.
Dead streets came to life..... 
When firewall of silence demolished in morning,
number of faces gathered around her.

It was awful--
Leaves of night were found in eyes of sister Nusrat.
Open lips were transformed into two lines of Mir's couplet.

sarhane  Mir ke  aahista  bolo
abhi tuk rote-rote so gaya hai
(Speak  slow  on Mir's  head, 
while weeping he fell in sleep)


Written By- Parveen Qamar (Urdu)

Translated By- Timsal Qamar (Son)