Saturday, September 22, 2012


تنہائی کی اوٹ  میں 


عینی بجیا بڑی عمر کی محبوبہ جیسی لگتی تھیں...
وہ سب سے تپاک جاں سے ملتی تھیں  مگر قمر صاحب کے ساتھ انکا یہ احساس 
لوگوں کی گفتگو کا حصّہ بنتا جا رہا تھا، وہ اکثر عینی بجیا کے گھر جایا کرتے تھے 
ان دنوں انکے درمیان گراں نہ گزرنے والے الفاظ رواج پا رہے تھے.......

ہنسی مذاق کے اس شفّاف رشتے کو کھڑکی کی باریک جھری میں اٹکی ہوئی دو آنکھیں ریکارڈ کیا کرتی تھیں
اور دل کے تہ خانے سے سونے چاندی کے ورق نکال نکال کر لٹایا کرتی تھیں.....
کبھی ان مسلسل ملاقاتوں کا سلسلہ ٹوٹ جاتا تو قمر صاحب کی غیر حاضری کی شکایت عینی بجیا کم 
عینی بجیا کے گھر کمرے میں مقید، کھڑکی کی باریک جھری میں اٹکی ہوئی دو آنکھیں زیادہ کیا کرتی تھیں.
پر وہ مہربان آنکھیں جس چہرے پر جڑی ہوئی تھیں وہ چہرہ ان سے پردہ کرتا تھا.انکی آمد پر چھوٹے سے 
کمرے میں غروب ہو جانا اور نہ آنے پر ایک اضطراب سا محسوس کرنا........ ان کے اس رومانٹک اینگل کا
 ذکر جب عینی بجیا نے قمر صاحب سے کیا  تو ان کے اندر اس چہرے کو دیکھنے کی لہر سی اٹھنے لگی
 مگر اس چہرے کو دیکھ پانا سہل نہ تھا........ تنہائی کی اوٹ میں اس کا پڑاؤ تھا.

ایک دن دالان میں قمر صاحب عینی بجیا کے ساتھ بیٹھے چاۓ کی پیالی میں شکر کیوب گھول رہے تھے.
اچانک پیالی زمیں پر گرنے کے ساتھ ہی عینی بجیا  کے منھ سے بے ساختہ ایک چیخ نکل گئی..........
چیخ سن کر پردے کا بھرم ٹوٹ گیا. دیواروں کے بیچ سے زندگی کا ایک ڈھیر نکلا ....کمرے کی سچائی
 باہرآگئی جسے متصوّر کرنے کے لئے نہ جانے کتنی خوبصورتیاں انکے ذہن میں اکٹھا ہو گئی تھیں اسے 
مُڑ کے دیکھا تو ............
                                    جھریوں بھرا ایک بوڑھا چہرہ سامنے تھا.  





By-
Parveen Qamar       
  

No comments:

Post a Comment

Note: Only a member of this blog may post a comment.