Saturday, September 22, 2012


سرہانے میر کے .......


رات کی پتیاں گر رہیں تھیں .......
سناٹوں کی فصیل کے ادھر رہ رہ کر ایک آواز پھپھک جاتی تھی 
اور فضا میں میر کا شعر لو دے اٹھتا تھا ..........

سر ہانے   میر کے  آ ہستہ   بولو 
ابھی ٹک روتے روتے سو گیا ہے 

آخر شب کی یہ غیر واضح آواز نصرت آپا کی تھی .
سنہرے  دل اور سفید بالوں والی نصرت آپا ہماری ہمسایہ تھیں.......
میر کے شعرایسے پڑھا  کرتی تھیں گویا .ان کے سینے میں میرکا دیوان تھا.
بڑی زندہ دل ضعیفہ تھیں. برسوں سے بلڈ کینسر تھا، مگر زندگی کے رکھ رکھاؤ میں
 کوئی کمی نہ تھی. 

رات کی پتیاں گر رہی تھیں .........
اور وہ بار بار میر کا شعر پڑھ رہی تھیں.
شاید وہ رات ان پر بھاری پڑ گئی تھی. 
رات کا آخری تارا ٹوٹتے ہی افق پر سفید بال اڑنے لگے،
بے آواز گلی کوچوں میں جان آ  گئی.
صبح دم سناٹوں کی فصیل منہدم ہوئی، تو انکے اطراف کئی چہرے اکٹھا ہو گے

حیرتوں نے دیکھا -- 
.................
نصرت آپا کی آنکھوں میں رات کی پتیاں ڈھیر تھیں 
کھلے ہوئے ہونٹ میر کے دو مصرعوں  میں تبدیل ہو گے تھے 

سرہانے    میر  کے   آھستہ  بولو 
ابھی ٹک روتے روتے سو گیا ہے 



By-
Parveen Qamar



No comments:

Post a Comment

Note: Only a member of this blog may post a comment.