Saturday, September 22, 2012


اہل دل 


انظر بھائی کے اندر سوکھے ہوئے پتوں کا ایک ڈھیر تھا......... 
جو رات بھر کھڑ کھڑایا کرتا تھا. بھر پور علاج کے بعد بھی وہ مکمل صحت یاب نہ ہو سکے تھے. 
ہوتے بھی کیسے ؟ ڈاکٹروں نے آرام کی سخت ہدایت کی تھی،
مگر ٹھنڈے توے کی اداسی انھیں گھر بیٹھنے نہیں دیتی تھی. 
اندر ہی اندر ڈھیر ساری موم بتیاں جلتی پگھلتی رہتی تھیں.

طویل بیماری نے انھیں مسمار کر دیا تھا. انکا سارا کار و بار تباہ ہو گیا تھا. 
ایک ایک کرکے گھر کی  قیمتی چیزیں فروخت کر چکے تھے. زندگی چلچلا تی دھوپ  
میں جھلس گئی تھی پھر بھی موسم کی شکایت نہیں کرتے تھے.

ایک دن گھر سے نکلے اور غیرارادی طور پر ٹہلتے ٹہلتے خانقاہ پہنچ گئے.
پیروں فقیروں سے انکو کوئی شغف نہ تھا، پر اس دن روح میں گلاب کی ٹہنیاں  جھومنے لگیں. 
اہل دل کی محفل سجی تھی چپ چاپ بیٹھ گئے. دو ایک مرتبہ صوفی صاحب نے
اچٹتی نگاہ سے دیکھا بھی مگر انہوں نے کوئیعرض مدّعا نہ کی....
طلب کا ہاتھ نہیں پھیلایا. 
..................
ریشم کے کیڑے شہتوت کی پتیاں چاٹتے رہے...... اور انظر بھائی خاموش بیٹھے رہے......
کچھ دیر بعد اٹھنے لگے تو بغیر گفت و شنید صوفی صاحب نے 
مصافہ کے درمیان ان کے ہاتھ میں کچھ رقم دبا دی.

By-
Parveen Qamar

No comments:

Post a Comment

Note: Only a member of this blog may post a comment.