Saturday, September 22, 2012


جیا 


رات اپنے آخری پڑاؤ پر تھی.......
 مسجد کے میناروں سے بیدار کرنے والی اذانیں پھوٹ رہی تھیں،
 لیکن جیا آج نہ  جانے کن نیندوں سوئی ہوئی تھیں کہ جاگنے کا نام ہی نہ لیتی تھیں.

جیا کے دن تسبیح کے  دانوں کی طرح نورانی تھے. تہجّد گزار راتیں انکا مصلی بچھاتی تھیں.
 بارہ ماسی روزے رکھنے والی جیا کو آتے جاتے ہوئے موسم سلام کرتے تھے
بوٹا سا قد....ٹمٹماتی ہوئی آنکھیں......انکی انہی آنکھوں کے ساحل پر کبھی اپنے بیٹے
مصطفیٰ کیلئے خوابوں کا جمگھٹ تھا، مگر بیٹے کی جدائی میں جیا جیسے اندر سے ادھڑ سی گئی تھیں
اور خوابوں کی جگہ بیٹے کے انتظار کا دھندلکا پھیل گیا تھا
انکی مرضی کے خلاف مصطفیٰ نے کسی سےعقد کر لیا  تھا . اس صدمے سے انکے دل کی دیواریں ڈھہ گئی تھیں
پھر ایک دن جب انہوں نے بیٹے کی نفی کر دی ، بہو کو قبول کرنے سے انکار کر دیا 
تو مصطفیٰ بھیاپنی دنیا سمیٹ کے جیا کی سرحدوں سے دور چلے گئے. کبھی واپس آے نہ کوئی خبر ہی دی،
لیکن جیا کو امید تھی کہ بھٹکنوں کے مارے کو کبھی تو گھر یاد آےگا
اور اسی امید پر جب پو  پھٹتی. افق پر رنگ اکٹھا ہونے  لگتے تو جیا ایک آس لئے ہوئے
ریلوے اسٹیشن پہنچ جاتیں. دن بھر آتے جاتے مسافروں کے انبوہ میں انکی آنکھیں مصطفیٰ کو ڈھونڈتی رہتیں.
پھر دن بجھنے سے پہلے اپنے آنسوؤں کی گٹھری باندھ کے گھر لوٹ آتیں
برسوں سے انکا یہی معمول تھا

.................................
سریلی اذانیں سن کر بھی جب جیا کے  حجرے میں
 روشنی نہیں پھوٹی ، کوئی آہٹ بیدار نہیں ہوئی تو بوسیدہ سی حویلی کے درودیوار  دہل گئے.
--حجرہ کھول کے دیکھا گیا
سرد انگاروں پر راکھ جم چکی تھی .....جیا کا منھ کھلا تھا 
آنکھیں پتھرا گئی تھی
اور انکے سینے پر مصطفیٰ کی ایک پرانی تصویر پڑی تھی 


BY-
PARVEEN QAMAR

No comments:

Post a Comment

Note: Only a member of this blog may post a comment.