فرشتوں کی خوشبو
........................
ثروت اور انکے شوہر کے درمیان دس برس سے ایک لمحہ حایل ہے.
...........................
وہ موسم بہار کا پہلا دن تھا. ثروت کی چھوٹی بہن ثمینہ کناڈا سے آئ ہوئی تھی.
ثمینہ بڑی شوخ واقع ہوئی تھی. اکثر شاعروں کا مذاق اڑاتی اور شاعری کو
Missing Art کہتی تھی.
اس دن نہ جانے کیا افتاد پڑی........ ثمینہ کہنے لگی-- "آپا !! "
دولھا بھائی، تو شاعر ہیں مگر گھر میں اشعار کی مہک نہیں آ رہی ہے ؟
ثروت کو شاعر کی بیوی ہونے کا بڑا ناز تھا. ناز سے بولیں--
جب سے تم آئ ہو، 'غالب غزل سرا نہ ہوا'
ورنہ اشعار'اڑتے پھرتے تھے تتلیوں کی طرح'........
دل صاحب دونوں بہنوں کی گفتگو پر زیر لب مسکراتے رہے
اور دل ہی دل ایک مصرع دوہراتے رہے.......
چھیڑ خوباں سے چلی جاۓ اسد
وہ انکی شادابیوں کے دن تھے. انکے گلے میں نور تھا ایک تو سالی صاحبہ کی
فرمائش دوسرے بیوی کا اصرار....... دل صاحب نے ایسی غزل چھیڑی کہ دل
نکال کے رکھ دیا .
نکال کے رکھ دیا .
.....................
اگلے دن ثروت نے، جنہیں اپنے شوہر کے پاس فرشتوں کی خوشبو آتی تھی،
اور اپنی چھوٹی بہن جسکو انہوں نے گودیوں کھلایا تھا، دونوں کے درمیان
سرحدوں کو ٹوٹتے ہوئے دیکھ لیا.وہ پتھر کی ہو گئیں
اور اپنی چھوٹی بہن جسکو انہوں نے گودیوں کھلایا تھا، دونوں کے درمیان
سرحدوں کو ٹوٹتے ہوئے دیکھ لیا.وہ پتھر کی ہو گئیں
برس بیت گئے......... مگر وہ آج بھی اپنے شوہر کے ساتھ.......... بیوی نہیں
بہن کی طرح رہ رہی ہیں.
بہن کی طرح رہ رہی ہیں.
No comments:
Post a Comment
Note: Only a member of this blog may post a comment.