Saturday, September 22, 2012


ابٌا
------- 
ابٌا کے اندر دھوپ کا ایک ٹکڑا تھا
تبھی تو ان کے مزاج کی گرمی سے امٌاں ہر وقت پگھلتی رہتی تھیں
اپنا 'موم' لےکر کہاں جاتیں۔
دادی سے سنا تھا......
بچپن میں ابٌا کو بطور دوا شیر کی چربی گھس کے پلائ گئ تھی،
اسی لئے انکی دہاڑ سے دیواریں پیچھے ہٹ جاتی تھیں۔
رٹائرمنٹ کے بعد بھی ابٌا اپنی وردی والی قمیص ہمیشہ پہنتے۔ محلٌے والے انہیں "حولدار صاحب" کہتے تھے۔
وہ سب کے لئے سایہٴ دیوار تھے پر امٌاں کے لئے چلچلاتی دوپہر۔
اپنی پنشن کا بیشتر حصٌہ وہ ضرورت مندوں،ناداروں میں بانٹ دیتے تھے۔
اور امٌاں اف تک نہ کرتیں۔امٌاں نے تو جیسے اپنا دل کسی چٹٌا ن کے نیچے دبا دیا تھا۔ہمیشہ ابٌا کے سامنے سرنگوں رہتیں 
اور ہم ڈرے سہمے.....

ابٌا ہماری پہنچ سے اوپر تھے۔
موسمِ سرما کی ایک شب آئس برگ کی طرح تیر رہی تھی۔ ٹھنڈے بستروں میں ہم اپنےآپ سے لپٹے ہوئے پڑے تھے
۔ہلکی ہلکی برف ہمارے اندر جمنے لگی تھی... ابٌا راکھ کا ڈھیر لئے بیٹھے تھے۔ 
مارے جاڑے کے کسی کو نیند نہیں آ رہی تھی۔یک بیک محسوس ہوا جیسے کسی نے موسم تبدیل کر دیا ہو.........،دہکھاتو۔۔ ابٌا ہمیں اپنی شال سے ڈھک رہے تھے۔
By
Parveen Qamar

No comments:

Post a Comment

Note: Only a member of this blog may post a comment.